ولادت حضرت علی اکبر علیہ السلام
علی اکبر -ع-
حضرت علی اکبر (ع) بن ابی عبداللہ الحسین (ع) 11 شعبان سن43 ھ (1) کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوے ـ
آپ امام حسین بن علی بن ابی طالب (ع) کے بڑے فرزند تھے اور آپ کی والدہ ماجدہ کا نام لیلی بنت مرّہ بن عروہ بن مسعود ثقفی ہے ـ لیلی کی والدہ میمونہ بنت ابی سفیان جوکہ طایفہ بنی امیہ سے تھیں ـ (2)
اس طرح علی اکبر (ع) عرب کے تین مہم طایفوں کے رشتے سے جڑے ہوے تھے ـ
والد کیطرف سے طایفہ بنی ھاشم سے کہ جس میں پیعبر اسلام (ص) حضرت فاطمہ (س) ، امیر المومنین علی بن ابیطالب (ع) اور امام حسن (ع) کے ساتھ سلسلہ نسب ملتا ہے اور والدہ کی طرف سے دو طایفوں سے بنی امیہ اور بنی ثقیف یعنی عروہ بن مسعود ثقفی ، ابی سفیان ، معاویہ بن ابی سفیان اور ام حبیبہ ھمسر رسول خدا (ص) کے ساتھ رشتہ داری ملتی تھی اور اسی وجہ سے مدینہ کے طایفوں میں سب کی نظر میں آپ خاصا محترم جانے جاتے تھے ـ ابو الفرج اصفہانی نے مغیرہ سے روایت کی ہے کہ: ایک دن معاویہ نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ : تم لوگوں کی نظر میں خلافت کیلۓ کون لایق اور مناسب ہے ؟ اسکے ساتھیوں نے جواب دیا : ہم تو آپ کے بغیر کسی کو خلافت کے لایق نہیں سمجھتے ! معاویہ نے کہا نہیں ایسا نہیں ہے ـ بلکہ خلافت کیلۓ سب سے لایق اور شایستہ علی بن الحسین (ع) ہے کہ اسکا نانا رسول خدا (ص) ہے اور اس میں بنی ھاشم کی دلیری اور شجاعت اور بنی امیہ کی سخاوت اور ثقیف کی فخر و فخامت جمع ہے (3)
حضرت علی اکبر (ع) کی شخصیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کافی خوبصورت ، شیرین زبان پر کشش تھے ، خلق و خوی ، اٹھنا بیٹھنا ، چال ڈال سب پیغمبر اکرم (ص) سے ملتا تھا ـ جس نے پیغبر اسلام (ص) کو دیکھا تھا وہ اگر دور سے حضرت علی اکبر کو دیکھ لیتا گمان کرتا کہ خود پیغمبر اسلام (ص) ہیں ۔ اسی طرح شجاعت اور بہادری کو اپنے دادا امیر المومنین علی (ص) سے وراثت میں حاصل کی تھی اور جامع کمالات ، اور خصوصیات کے مالک تھے ـ (4)
ابوالفرج اصفھانی نے نقل کیا ہے کہ حضرت علی اکبر (ص) عثمان بن عفان کے دور خلافت میں پیدا ہوے ہیں (5) اس قول کے مطابق شھادت کے وقت آنحضرت 25 سال کے تھے ـ
حضرت علی اکبر (ع) نے اپنے دادا امام علی ابن ابی طالب (ع) کے مکتب اور اپنے والد امام حسین (ع) کے دامن شفقت میں مدینہ اور کوفہ میں تربیت حاصل کرکے رشد و کمال حاصل کرلیا ـ
امام حسین (ع) نے ان کی تربیت اور قرآن ، معارف اسلامی کی تعلیم دینے اور سیاسی اجتماعی اطلاعات سے مجہز کرنے میں نہایت کوشش کی جس سے ہر کوئی حتی دشمن بھی ان کی ثنا خوانی کرنے سے خودکو روک نہ پات تھا ـ
بہر حال ، حضرت علی اکبر (ع) نے کربلا میں نہایت مؤثر کردار نبھایا اور تمام حالات میں امام حسین (ع) کے ساتھ تھے اور دشمن کے ساتھ شدید جنگ کی ـ (6)
شایان زکر ہے کہ حضرت علی اکبر (ع) عرب کے تین معروف قبیلوں کے ساتھ قربت رکھنےکے باوجود عاشور کے دن یزید کے شپاہیوں کے ساتھ جنگ کے دوران اپنی نسب کو بنی امیہ اور ثقیف کی طرف اشارہ نہ کیا ، بلکہ صرف بنی ھاشمی ہونے اور اھل بیت (ع) کے ساتھ نسبت رکھنے پر افتخار کرتے ہوے یوں رجز خوانی کرتے تھے :
أنا عَلي بن الحسين بن عَلي نحن و بيت الله اَولي بِالنبيّ
أضرِبکُم بِالسّيف حتّي يَنثني ضَربَ غُلامٍ هاشميّ عَلَويّ
وَلا يَزالُ الْيَومَ اَحْمي عَن أبي تَاللهِ لا يَحکُمُ فينا ابنُ الدّعي
عاشور کے دن بنی ھاشم کا پہلا شھید حضرت علی اکبر (ع) تھے اور زیارت معروفہ شھدا میں بھی آیا ہے : السَّلامُ عليکَ يا اوّل قتيلٍ مِن نَسل خَيْر سليل.(7)
حضرت علی اکبر (ع) نے عاشور کے دن دو مرحلوں میں عمر سعد کے دو سو سپاہیوں کو ھلاک کیا اور آخر کار مرّہ بن منقذ عبدی نے سرمبارک پر ضرب لگا کر آنحضرت کو شدید زخمی کیا اور اسکے بعد دشمن کی فوج میں حوصلہ آيا اور حضرت پر ہر طرف سے حملہ شروع کرکے شھید کیا ـ
امام حسین (ع) انکی شھادت پر بہت متاثر ہوے اور انکے سرہانے پہنچ کر بہت روے اور جب خون سے لت پت سر کو گود میں لیا ، فرمایا: عَلَي الدّنيا بعدک العفا.(8)
شھادت کے وقت حضرت علی اکبر (ع) کی عمر کے بارے میں اختلاف ہے ـ بعض نے 18 سال ، بعض نے 19 سال اور بعض نے 25 سال کہا ہے (9)
مگر یہ کہ امام زین العابدین (ع) سے بڑے تھے یا چھوٹے اس پر بھی مورخوں اور سیرہ نویسوں کا اتفاق نہیں ہے ـ البتہ امام زین العابدین (ع) سے روایت نقل کی گی ہے کہ جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ سن کے اعتبار سے علی اکبر (ع) سے چھوٹے تھے ـ امام زین العابدین (ع) نے فریایا ہے : کان لی اخ یقال لہ علی ، اکبر منّی قتلہ الناس ـ ـ ـ (10)
حوالہ:
1- مستدرک سفينه البحار (علي نمازي)، ج 5، ص 388
2- أعلام النّساء المؤمنات (محمد حسون و امّ علي مشکور)، ص 126؛ مقاتل الطالبيين (ابوالفرج اصفهاني)، ص 52
3- مقاتل الطالبيين، ص 52؛ منتهي الآمال (شيخ عباس قمي)، ج1، ص 373 و ص 464
4- منتهي الآمال، ج1، ص 373
5- مقاتل الطالبيين، ص 53
6- منتهي الآمال، ج1، ص 373؛ الارشاد (شيخ مفيد)، ص 459
7- منتهي الآمال، ج1، ص 375
8- همان
9- همان و الارشاد، ص 458
10- نسب قريش (مصعب بن عبدالله زبيري)، ص 85، الطبقات الکبري (محمد بن سعد زهري)، ج5، ص 211
نوٹ: یہ مضمون "تبیان" سے لیا گیا ہے۔
|