۱۳۹۶/۲/۷   1:2  بازدید:2741     استفتاءات: آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای


قصد مسافرت اور دس دن کی نیت

 


قصد مسافرت اور دس دن کی نیت
 
س670۔ میں جس جگہ ملازمت کرتا ہوں وہ قریبی شہر سے شرعی مسافت سے کم فاصلہ پر واقع ہے اور چونکہ دونوں جگہ میرا وطن نہیں ہے لہذا میں اپنی ملازمت کی جگہ دس روز ٹھہرنے کا قصد کرتا ہوں تاکہ پوری نماز پڑھ سکوں اور روزہ رکھ سکوں اور جب میں اپنے کام کی جگہ دس روز قیام کرنے کا قصد کرتا ہوں تو دس روز یا اس کے بعد قریبی شہر میں جانے کا قصد نہیں کرتا پس درج ذیل حالات میں شرعی حکم کیا ہے ؟
 
1۔ جب میں اچانک کسی کام سے دس دن کامل ہو نے سے پہلے ہی اس شہر کو جاؤں اور تقریباً دو گھنٹے وہاں ٹھہرنے کے بعد کام کی جگہ واپس آ جاؤں۔
 
2۔ جب میں دس روز کامل ہو نے کے بعد اس شہر کے معین محلہ میں جاؤں اور یہ فاصلہ شرعی مسافت سے زیادہ نہ ہو اور ایک رات وہاں قیام کر کے اپنی ملازمت کی جگہ واپس آ جاؤں۔
 
3۔ جب میں دس روز قیام کے بعد اس شہر کے کسی معین محلہ کے قصد سے نکلوں لیکن وہاں پہنچنے کے بعد میرا ارادہ بدل جائے اور میں شہر کے اس محلہ میں جانے کی نیت کر لوں جو میری قیام گاہ سے شرعی مسافت سے زیاد ہ دور ہے ؟
 
ج۔ 2۔1 قیام گاہ پر پوری نماز پڑھ لینے کے بعد خواہ ایک چار رکعتی نماز ہی پڑھی ہو شرعی مسافت سے کم فاصلہ تک جانے میں کوئی حرج نہیں ہے خواہ سفر گھنٹہ دو گھنٹے کا ہو اور ایک دن میں ہو یا کئی دنوں میں اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اپنی قیام گاہ سے دس دن کامل ہو نے کے بعد نکلے یا دس دن کامل ہو نے سے قبل بلکہ نئے سفر سے پہلے تک پوری نماز پڑھے گا اور روزہ رکھے گا۔
 
3۔ جب نیت بدلنے کی جگہ سے شرعی مسافت تک کے سفر کا قصد کرے اور پھر اس مسافت کو طے کر کے اپنی قیام گاہ تک لوٹ آئے تو اس سے سابقہ قیام کا حکم ختم ہو جائے گا اور قیام گاہ پر لوٹنے کے بعد از سر نو دن کے قیام کی نیت کرنا ضروری ہے۔
 
س671۔ مسافر اپنے وطن سے نکلنے کے بعد اگر اس راستے سے گزرے جہاں سے اس کے اصلی وطن کی آواز اذان سنائی دیتی ہے یا اس کے وطن کے گھروں کی دیواریں دکھائی پڑتی ہیں تو کیا اس سے قطع مسافت پر کوئی اثر پڑتا ہے ؟
 
ج۔ اگر اپنے وطن سے نہ گزرے تو اس سے قطع مسافت پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور نہ اس سے سفر کا سلسلہ منقطع ہو تا ہے لیکن جب تک اس جگہ ہے اس وقت تک اس پر سفر کا حکم جاری نہیں ہو گا۔
 
س672۔ جہاں میں ملازم ہوں اور آج کل سکونت پذیر ہوں وہ میرا اصل وطن نہیں ہے اور اس جگہ کے اوپر میرے اصلی وطن کے درمیان شرعی مسافت سے زیادہ فاصلہ ہے۔ ملازمت کی جگہ کو میں نے اپنا اصلی وطن نہیں بنایا ہے۔ اور یہ ممکن ہے کہ وہاں میں چند سال رہوں بعض اوقات وہاں سے دفتری امور کے لئے مہینے بہر میں ایک دو دن کے سفر پر بھی جاتا ہوں پس جب میں اس شہر سے نکل کر جس میں ، میں سکونت پذیر ہوں حد شرعی سے زیادہ دور جاؤں اور پھر وہیں لوٹ آؤں تو کیا مجھ پر واجب ہے کہ دس دن کے قیام کی پھر سے نیت کروں یا اس کی ضرورت نہیں ہے ؟اور اگر دس دن کے قیام کی نیت واجب ہے تو شہر کے اطراف میں کتنی مسافت تک میں جا سکتا ہوں ؟
 
ج۔ آپ جس شہر میں سکونت پذیر ہیں اگر وہاں سے شرعی مسافت تک جاتے ہیں تو سفر سے لوٹ کر اس شہر میں آنے پر از سر نو دس دن کے قیام کی نیت ضروری ہے اور جب صحیح طریقہ سے آپ کا دس دن کے قیام کا قصد متحقق ہو جائے اور پوری نماز پڑھنے کا حکم آپ کا فریضہ بن جائے، اور چاہے ایک ہی چار رکعتی نماز پڑھی ہو ، تو ا سکے بعد محل سکونت سے نکل کر شرعی مسافت سے کم فاصلہ تک سفر کرنے سے دس دن کے قیام کی نیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جیسا کہ دس دن کے دوران شہر کے باغوں اور کھیتوں پر جانے سے اقامت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
 
س673۔ اگر ایک شخص ، چند سال سے، اپنے وطن سے چار کلومیٹر دور رہتا ہے اور ہفتہ میں ایک مرتبہ گھر جاتا ہے پس اگر یہ شخص سفر کرے اور اس کے اور وطن کے درمیان 25 کلومیٹر کا فاصلہ طے ہو جائے لیکن جس جگہ وہ تعلیم حاصل کرتا ہے وہاں سے یہ فاصلہ 22 کلومیٹر ہو تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے ؟
 
ج۔ جب وہ تعلیم و تحقیق کے مرکز سے کسی دوسری جگہ کا قصد کرے جس کا فاصلہ شرعی مسافت سے کم ہو تو اس پر سفر کا حکم جاری نہیں ہو گا لیکن اگر وطن سے اس مقصد کا ارادہ کرے تو اس پر سفر کا حکم مرتب ہو گا۔
 
س674۔ ایک مسافر نے تین فرسخ تک جانے کا قصد کیا لیکن ابتداء ہی سے اس کا ارادہ تھا کہ وہ ایک کام کی انجام دہی کے لئے ایک فرعی راستہ سے ایک فرسخ تک جائے گا پھر اصلی راستہ پر آ جائے گا اور اپنے سفر کو جاری رکھے گا تو اس سفر میں اس کے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے ؟
 
ج۔اس پر مسافر کا حکم جاری نہیں ہو گا اورمسافت کو پورا کرنے کے لئے راستہ سے ہٹ نا اور دوبارہ اس پر لوٹ آنا کافی نہیں ہے۔
 
س675۔ امام خمینی (رح) کے (اس) فتوے کے پیش نظر کہ جب آٹھ فرسخ کا سفر ہو تو روزہ رکھنا جائز نہیں اور نماز قصر ہے پس اگر جانے کا راستہ چار فرسخ سے کم ہو لیکن واپسی پر سواری نہ ملنے پر یا راستے کی مشکلات کے پیش نظر اس شخص پر لازم ہو کہ ایسا راستہ اختیار کرے جو چہ فرسخ سے زیادہ ہے۔ اس صورت میں نماز روزہ کا کیا حکم ہے ؟
 
ج۔ جب جانا چار فرسخ سے کم ہو اور واپسی کا راستہ بھی شرعی مسافت کے برابر نہ ہو تو نماز پوری پڑے گا اور روزہ رکھے گا۔
 
س676۔ جو شخص اپنے محل سکونت سے ایسی جگہ جائے جس کا فاصلہ شرعی مسافت سے کم ہو ، ہفتہ بھر میں اس جگہ سے متعدد بار دوسری جگہوں کا سفر کرے اس طرح کہ کل مسافت آٹھ فرسخ سے زیادہ ہو جائے تو اس کا کیا فریضہ ہے ؟
 
ج۔ اگر وہ گھر سے نکلتے وقت مسافت کا قصد نہیں رکھتا تھا اور نہ اس کی پہلی منزل اور ان جگہوں کے درمیان کا فاصلہ شرعی مسافت کے برابر تھا تو اس پر سفرکا حکم جاری نہیں ہو گا۔
 
س677۔ اگر ایک شخص اپنے شہر سے کسی خاص جگہ کے قصد سے نکلے اور پھر اس جگہ سے ادھر ادھر جائے تو کیا اس کا یہ ادھر ادھر جانا مسافت میں شمار ہو گا جو اس نے اپنے گھر سے طے کی ہے ؟
 
ج۔ اس جگہ سے ادھر ادھر جانا مسافت میں شمار نہیں ہو گا۔
 
س678۔ کیا دس دن قیام کی نیت کے وقت یہ نیت رکھنا جائز ہے کہ روزانہ محل اقامت سے محل شغل تک جاتا رہوں گا جبکہ ان دو جگہوں کا فاصلہ چار فرسخ سے کم ہو ؟
 
ج۔ دس دن قیام کی نیت کے ساتھ شرعی مسافت سے کم فاصلہ تک جانے کی نیت رکھنا قصد اقامت کے لئے اسی وقت نقصان دہ ہے جب عرفاً کہا جائے کہ یہ شخص محل اقامت میں،  دس دن نہیں ٹھہرا ہے،  جیسے کوئی شخص پورا دن بھر رہے۔ لیکن اگر وہ شخص دن رات میں چند گھنٹہ کے لئے بہر جائے اور دن یا رات کے ایک تھائی حصہ تک بھر رہے یا دن یا رات میں ایک دفعہ بھر جائے یا چند بار بھر جائے لیکن مجموعی طور پر دن یا رات کے ایک تھائی حصہ سے زیادہ نہ ہو تو ایسی نیت قصد امامت کی صحت کے لئے مضر نہیں ہے۔
 
س679۔ اس بات کے پیش نظر کہ ایک شخص اپنے محل سکونت سے اپنی جائے ملازمت تک جاتا ہے اور دونوں ( محل سکونت و محل ملازمت) کے درمیان 24 کلومیٹر سے زیادہ فاصلہ ہے جو پوری نماز پڑھنے کا موجب ہے ، پس اگرمیں ان شہروں کے حدود سے بہر نکلوں جہاں ملازمت کرتا ہوں یا کسی دوسرے شہر کی طرف جاؤں جس کا فاصلہ میرے کام کرنے کی جگہ سے شرعی مسافت سے کم ہے اور ظہر سے قبل یا بعد واپس ہو جاؤں تو کیا میری نماز پھر بھی پوری ہے ؟
 
ج۔ صرف محل ملازمت سے شرعی مسافت سے کم نکلنے پر آپ کے روزہ نماز کا حکم نہیں بدلے گا چاہے روزانہ کے عمل سے اس کا کوئی واسطہ نہ ہو اوراس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ آپ وہاں ظہر سے قبل واپس آئیں یا بعد میں۔
 
س680۔ میں اطراف اصفہان کا رہنے والا ہوں اور ایک عرصہ سے شہین شہر کی یونیورسٹی میں ملازمت کرتا ہوں جو اصفہان کے تابع ہے اور اصفہان کے حد ترخص سے شہین شہر تک تقریباً بیس کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ لیکن یونیورسٹی تک، جو اطراف شہر میں واقع ہے ، تقریباً 25 کلومیٹر سے زیادہ مسافت ہے جبکہ یونیورسٹی شہین شہر میں واقع ہے اور میرا راستہ شہر کے درمیان سے گزرتا ہے مگر میرا اصلی مقصد یونیورسٹی ہے پس مجھے مسافر شمار کیا جائے گا یا نہیں ؟
 
ج۔ اگر دونوں شہروں کے درمیان چار شرعی فرسخ سے کم فاصلہ ہے تو اس پر سفر کا حکم مرتب نہیں ہو گا۔
 
س681۔ میں ہر ہفتہ سیدہ معصومہ ’ علیہا السلام ‘ کے مرقد کی زیارت اور مسجد جمکران کے اعمال بجا لانے کی غرض سے قم جاتا ہوں۔اس سفر میں ، مجھے پوری نماز پڑھنا چاہئیے یا قصر؟
 
ج۔ اس سفر میں وجوب قصر کے سلسلہ میں آپ کا حکم وہی ہے جو تمام مسافروں کا ہے۔
 
س682۔ شہر کا ثمر میری جائے ولادت ہے اور 1345 ہ۔ش۔ سے 1369 ھ،ش تک میں تہران میں مقیم رہا اب تین سال سے اپنے خاندان کے ساتھ ادارہ کی طرف سے بندر عباس میں تعینات ہوں اور ایک سال کے اندر پھر تہران لوٹ آؤں گا، اس کے پیش نظر کہ جب میں بندر عباس میں مقیم تھا وہاں سے میں کسی بھی وقت ادارہ کے ضروری کام کہ جو کام میرے ذمہ ہو تے تھے۔ اس سے وقت کا اندازہ نہیں لگا سکتا تھا۔
 
برائے مہربانی پہلے میرے روزہ نماز کا حکم بیان فرمائیں گے؟
 
دوسرے : اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ میں اکثر اوقات یا سال کے چند مہینوں میں کام کے سلسلے میں سفر میں رہتا ہوں ، میرے اوپر کثیر السفر کا عنوان صادق آتا ہے یا نہیں ؟
 
اور تیسرے : میری زوجہ کی نماز و روزہ کا کیا حکم ہے وہ میری شریک حیات ہے ، اس کی جائے پیدائش تہران ہے اور میری وجہ سے بندرعباس میں رہتی ہے ؟
 
ج۔ اس وقت جہاں آپ ڈیوٹی پر ہیں اور جو آپ کا وطن نہیں ہے ، وہاں آپ کے روزہ اور نماز کا وہی حکم ہے جو مسافر کے روزہ و نماز کا حکم ہے ، یعنی نماز قصر ہے اور روزہ صحیح نہیں ہے۔مگر یہ کہ آپ وہاں دس دن قیام کرنے کی نیت کر لیں یا دس دن میں کم ازکم ایک مرتبہ مربوط ذمہ داری کی انجام دہی کے لئے شرعی مسافت تک جائیں لیکن آپ کی زوجہ جو آپ کے ساتھ ہے اگر وہاں دس روز ٹھہرنے کی نیت کر لیتی ہے تو ا سکی نماز تمام اور روزہ صحیح ہے ورنہ نماز قصر اور روزہ رکھنا صحیح نہیں ہے۔
 
س683۔ ایک شخص نے ایک جگہ دس دن ٹھہرنے کا قصد کیا، اس طرح کہ وہ جانتا تھا کہ وہاں دس روز تک ٹھہرے گا یا اس نے اس امر کا ارادہ کر لیا پھر اس نے ایک چار رکعتی نماز پوری پڑھ لی جس سے اس کا قیام متحقق ہو گیا۔اب اسے ایک غیر ضروری سفر در پیش ہو گیا، کیا اس کے لئے یہ سفر جائز ہے ؟
 
ج۔ اس کے سفر میں کوئی مانع نہیں ہے خواہ سفر غیر ضروری ہو۔
 
س684۔ اگر کوئی شخص امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے لئے سفر کرے اور یہ جانتا ہو کہ وہاں دس روز سے کم قیام رہے گا لیکن نماز پوری پڑھنے کی غرض سے دس روز ٹھہرنے کی نیت کر لے تو اس کا کیا حکم ہے ؟
 
ج۔ اگر وہ جانتا ہو کہ وہاں دس روز قیام نہیں کرے گا تو اس کا اقامت عشرہ کی نیت کرنا بے معنی ہے اور اس کی اس نیت کا کوئی اثر نہیں ہے اور وہ وہاں قصر نماز پڑھے گا۔
 
س685۔ شہرسے بہر کے ملازمت پیشہ لوگ جو اس شہر میں دس روز قیام نہیں کرتے اور ان کا سفر بھی شرعی مسافت سے کم ہو تا ہے تو نماز کے سلسلہ میں ان کا کیا حکم ہے قصر پڑھیں یا پوری؟
 
ج۔ جب وطن اور محل ملازمت کے درمیان یا آمد رفت دونوں ملا کر شرعی مسافت کے برابر فاصلہ نہ ہو ، تو ان پر مسافر کے احکام جاری نہیں ہوں گے اور جس شخص کے وطن اور جائے ملازمت کے درمیان شرعی مسافت کے برابر فاصلہ ہو اور دس روز کے اندر وہ کم از کم ایک مرتبہ دونوں کے درمیان سفر کرے اس پر پوری نماز پڑھنا واجب ہے ورنہ دس دن کے قیام کے بعد سفر اول میں اس کا وہی حکم ہے جو تمام مسافروں کا ہے۔
 
س686۔ اگر کوئی شخص کسی جگہ سفر کرے اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ وہاں کتنے دن قیام کرنا ہے ، دس روز یا اس سے کم تو اسے کس طرح نماز پڑھنی چاہئیے؟
 
ج۔ قصر نماز پڑھے گا۔
 
س687۔ جو شخص دو مقامات پر تبلیغ کرتا ہے اور اس علاقہ میں دس روز قیام کا قصد رکھتا ہے اس کے روزہ نماز کا کیا حکم ہے ؟
 
ج۔ اگر عرف عام میں یہ دو علاقے ہیں تو مذکورہ صورت میں وہ نہ دونوں میں قصد اقامت کرسکتا۔ اور نہ ایک مقام پر جبکہ دوسرے مقام تک جانے کا قصد بھی رکھتا ہو۔