۱۳۹۶/۲/۶   23:50  بازدید:2388     استفتاءات: آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای


قیادت و مرجعیت

 


 متفرقات....................................................فہرست.....................................ولایت فقیہ اور حکم حاکم


قیادت و مرجعیت
 
 س55۔ اگر اجتماعی ، سیاسی اور ثقافتی مسائل میں ولی امر مسلمین اور دوسرے مرجع تقلید کے فتوے میں تعارض و اختلاف ہو تو ایسے میں مسلمانوں کا شرعی فریضہ کیا ہے ، کیا کوئی ایسی حد فاصل ہے جو ولی امر مسلمین اور مرجع کے صادر کردہ احکام میں امتیاز پید اکرسکے ؟ مثلاً اگر موسیقی کے سلسلہ میں مرجع تقلید اور ولی امر مسلمین کی آراء میں اختلاف ہو تو یہاں کس کا اتباع واجب اور کافی ہے اور عام طور پر وہ کون سے حکومتی احکام ہیں جن میں ولی امر مسلمین کا حکم مرجع تقلید کے فتوے پر ترجیح رکھتا ہے؟
 
ج۔ اسلامی ملک کے نظم و نسق اور مسلمانوں کے عمومی مسائل میں ولی امر مسلمین کے حکم کا اتباع کیا جائے گا اور انفرادی مسائل میں مکلف اپنے مرجع تقلید کا اتباع کرسکتا ہے۔
 
س56۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ اصول فقہ میں ’ اجتہاد متجزی ‘ کے عنوان سے بحث کی جاتی ہے کیا امام خمینی  (رح) کا مرجعیت کو قیادت سے جدا کرنا تجزی کے تحقق کی جانب ایک قدم نہیں ہے؟
 
ج۔ ولی فقیہ کی قیادت اور مرجعیت تقلید سے الگ الگ ہو جانے کا اجتہاد میں تجزی والے مسئلہ سے کوئی ربط نہیں ہے۔
 
س57۔ اگر میں کسی مرجع کا مقلد ہوں اور ولی امر مسلمین ظالم کافروں سے جنگ یا جہاد کا اعلان کرے اور میرا مرجع تقلید مجھے جنگ میں شریک ہونے کی اجازت نہ دے تو میں اس کی رائے پر عمل کروں یا نہ کروں ؟
 
ج۔ امور عامہ میں ولی امر مسلمین کے حکم کی اطاعت واجب ہے، ان ہی امور میں اسلام اور مسلمانوں کا دفاع اور حملہ آور کافروں اور طاغوتوں سے جنگ بھی شامل ہے۔
 
س58۔ ولی فقیہ کا حکم یا اس کا فتویٰ کس حد تک قابل عمل ہے اور اگر ولی فقیہ کا حکم یا فتویٰ مرجع اعلم کی رائے کے خلاف ہو تو ان دونوں میں سے کس پر عمل کیا جائے گا اورکسے ترجیح دی جائے گی؟
 
ج۔ ولی امر مسلمین کے حکم کا اتباع تمام لوگوں پر واجب ہے اور یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اختلاف کی صورت میں مرجع تقلید کے فتوے کو ولی فقیہ کے حکم کے مقابلے میں لایا جائے۔

متفرقات....................................................فہرست.....................................ولایت فقیہ اور حکم حاکم